How to write a story?

بچوں کو خود سے کہانی لکھوانا والدین اور پرائمری اساتذہ کیلئے انتہائی مشکل ہوتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ میٹرک تک 7-5کہانیاں چلتی ہیں جو بچے نے رٹا لگانی ہوتی ہیں۔ اگر بچے کو خود سے لکھنے پریکٹس کروائی بھی جائے تو امتحان میں یہی کہا جاتا ہے کہ نمبر نا کٹ جائیں اس لئے رٹا لگائی ہوئی کہانی لکھ کر آنا۔ اس سے بچے میں نفسیاتی طور پر ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جسے ‘سیف ایند پر کھیلنا ‘ کہتے ہیں یعنی بچہ ِرسک نہیں لیتا۔ جب رسک نہیں لیتا تو اسکا اعتماد نہیں بحال ہو پاتا۔ خود سے کہانی لکھنے میں 2طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ وہ بچے جنکو حد سے زیادہ ہی رٹا لگوا دیا جاتا ہے وہ ‘آئیڈیا’ سوچنے سے بھی مجبور، معذور اور مفلوج ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر انہیں کہا جائے کہ لالچی کتے کو پانی کے علاوہ کہیں اور سے گزار کر کوئی واقعہ بناؤ تو وہ نہیں بنا پاتے۔ یا یہ کہا جائے کہ پیاسا کوا کو ‘لالچی پیاسا کوا ‘میں بدل کر دکھاؤ جس میں یہ بتایا جائے کہ وہ لالچ کی وجہ سے پانی پینے سے محروم رہا۔ تو یہ بچے نہیں سوچ پاتے۔ یقینا آپ بھی سوچ میں پڑ گئے ہونگے، میں خود پڑ گیا ہوں۔ کیونکہ یہاں سسٹم ہی رٹے پر چل رہا لیکن پھر بھی مل کر اس سے لڑا جا سکتا اور سوچنے کی صلاحیت کو اجاگر کیا جا سکتا۔

 ان بچوں کی تخلیقی صلاحیت پر ابھی سے کام کرنا شروع کر دیں۔ کچھ تصاویر کے ذریعے ان سے کہانیاں بنوائیں، اور اگر کارٹون دیکھ رہا ہو تو آپ بھی اسکے ساتھ بیٹھ جائیں اور بحث کریں کہ مزید کیا تبدیلی ممکن ہے جو کارٹون کی کہانی بدل سکتی۔ کچھ الفاظ دیں بچے کو جن پر وہ خود بولے۔ مثلا ‘پہاڑ’ پر بات کرو، ایک ٹائیگر پہاڑ سے نیچے گر گیا ۔ آگے بتاؤ کیا ہوا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ جیسے ہی بچہ دماغ میں کہانی بنا لے اس سے ٹوٹے پھوٹے سٹرکچر میں منتقل کرنے کا کہیں اور اسکے پاس سے دور چلے جائیں، لکھتے وقت اسکے دماغ اور قلم کے ساتھ مطابقت کا ہونا بہت ضروری ہے پھر ہی پریکٹس ہو پائے گی۔ پھر اسکے لکھے ہوئے سٹرکچر پر اس سے بحث کریں کہ یہاں مزید کون کون سا ‘سین’ شامل ہو سکتا تھا۔ یہ انتہائی محنت طلب کام ہے اس لئے اساتذہ اور والدین اس سے جان چھڑواتے ہیں۔ لیکن ایک مہینے کی پریکٹس بچے کی زندگی بدل سکتی ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جنکو لکھنا ہی نہیں آتا۔ انکے ساتھ زبانی کلامی ‘آئیڈیا’ بحث کرتے رہیں تاکہ انکے دماغ میں تصوراتی خاکے بنتے جائیں اور سٹرکچر کیلئے انہیں ایک سٹرکچر پر 10 10 فقرے بنانے کا کہیں۔ مثلا۔ پرندے نے بندر پر حملہ کیا۔ اب بچے کو کہیں کہ اسی طرح کے اور فقرے بنائے۔ مثلا لومڑی نے پرندے پر حملہ کیا۔ فلاں نے فلاں پر حملہ کیا۔ اس طرح لفظ ‘حملے’ کی املاء ٹھیک ہوتی جائے گی اور باقی ‘اسماء’ یعنی ناموں کی فہرس بھی آتی جائے گی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ ہر مرتبہ لفظ حملہ لکھنے پر بچے کے زہن میں مختفل شکل بنے گی کیونکہ ہر جانور کا حملہ کرنے کا انداز مختلف ہے۔ جیسے ہی چھوٹے فقرات سے اسکی پریکٹس ہو جائے تو اسے لمبی کہانی لکھنے کا کہیں اور اوپر والے طریقے کی پیروی کریں۔

Sample Story

“Yesterday, I went to the zoo with my family. We saw many animals, like monkeys, lions, and elephants. My favorite was the giraffe, it was so tall! We fed it leaves and it licked my hand. Afterward, we had a picnic and I ate my favorite sandwich, peanut butter and jelly. Then, we rode the bus home and I fell asleep. It was a fun day!”

Or:

“Last week, my friends and I went on a camping trip. We set up our tents and made a campfire. We roasted marshmallows and told scary stories. Then, we went on a hike and saw a waterfall. It was so cool! We took a lot of pictures and made memories that will last a lifetime.”


These stories are in the past tense, using verbs like “went”, “saw”, “fed”, “ate”, “rode”, “fell”, “set up”, “made”, “roasted”, “told”, “went”, and “took”. This helps kids learn how to use the past tense to talk about completed actions.

You can adjust the vocabulary and grammar to fit the level of your students.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *